Skip to main content

مختصر جامع سوانح حیات

 مختصر جامع سوانح حیات

5 دسمبر ۔۔۔۔۔۔ 1957ء ۔۔۔۔۔۔۔ 63 واں یومِ وفات

شیخ الاسلام شیخ العرب والعجم حضرتِ اقدس مولانا سیّد حُسین احمد صاحب مدنی نوّر اللہ مرقدہ ، سابق شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیۃ علماء ہند

از : محمد طاھر قاسمی دھلوی ابن حضرت مولانا قاری دین محمد صاحب قاسمی میواتی ثم الدھلوی رحمۃ اللہ علیہ ، حوض رانی نئی دھلی انڈیا

آپ اسلامی ہند کے شیخ الاسلام ، دارالعلوم دیوبند کے صدرالمدرسین و شیخ الحدیث ، جمعیۃ علماء ہند کے صدر ، ہزاروں علماء کے جلیل القدر استاذ ، لاکھوں انسانوں کے مرشد کامل اور سیاست و طریقت کے امام تھے ۔ آپ اپنی جامعیت کے اعتبار سے " ان ابراھیم کان امۃ" کی تفسیر تھے ، کیوں کہ آپ بیک وقت علوم و معارف کے امام ، مجلس ارشاد و سلوک کے صدر نشین ، عزیمت و استقامت کے پہاڑ ، فقر و تواضع کے نشان ، بصائر و حِکم کے سرچشمہ ، زہد و قناعت کے مجسمہ ، اخلاص و ایثار کے پیکر ، سخاوت و شجاعت کے مخزن ، میدان صبر و رضا کے شہ سوار ، قافلۂ جہد و عمل کے تاجدار اور سلفِ صالحین کی مکمل و متحرک یادگار تھے ۔

ولادت :

آپ کی ولادت 19؍ شوّال المکرّم 1296ھ مطابق 6؍ اکتوبر 1879ء بانگر مئو ضلع اُنّاؤ ( یوپی ) میں ہوئی ۔ جہاں آپ کے والد ماجد حضرت سیّد حبیب اللہ صاحبؒ مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور مع اہل خانہ وہیں مقیم تھے ؛ ویسے آپ کا وطن الٰہ داد پور ٹانڈہ ضلع فیض آباد ہے ۔ آپ کا تاریخی نام چراغ محمد رکھا گیا ۔ آپ کے والد محترم حضرت مولانا شاہ فضلِ رحمٰن گنج مرادآبادی سے مرید تھے ۔

اپنے علم و تقویٰ کے لحاظ سے سادات کا یہ خاندان ہمیشہ ایک خاص عظمت اور شاہی زمانہ میں ایک بڑی جاگیر کا مالک رہا ہے ۔

تعلیم و تربیت

آپ نے ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول میں حاصل کی ،  14؍ سال کی عمر ہوئی تو آپ 1309ھ مطابق 1891ء  میں دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور ابتدائی درجہ میزان الصرف میں داخلہ لیا ، یہاں حضرت شیخ الہندؒ نے خاص شفقت و عنایت سے آپ کی تعلیم و تربیت فرمائی ۔ سات سال دارالعلوم دیوبند میں رہ کر 1316ھ مطابق 1898ء میں فراغت حاصل کی ۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ نے جن اکابر علماء کرام سے استفادہ اور شرف تلمّذ حاصل کیا ان میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ ، حضرت مولانا ذوالفقار علی صاحبؒ ، حضرت مولانا عبد العلی صاحبؒ ، حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ ، حضرت مولانا حکیم محمد حسن صاحبؒ ، حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمٰن صاحب عثمانیؒ ، حضرت مولانا غلام رسول صاحب ہزارویؒ ، حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحبؒ ، حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب عثمانیؒ ، حضرت مولانا سید محمد صدیق صاحبؒ جیسے اساطین علم و فن شامل ہیں ۔

درس و تدریس :

 دارالعلوم دیوبند کے نصاب کی تکمیل اور سات سال یہاں کے علمی ماحول میں گزارنے کے بعد جب وطن مالوف تشریف لے گئے تو 1306ھ میں آپ کے والد ماجد شوق ہجرت میں مدینۃ الرسول ﷺ کے لئے مع اہل و عیال رخت سفر باندھ چکے تھے ۔ آپ بھی والدین کے ہمراہ روانہ ہوگئے ۔ روانگئ حجاز سے قبل آپ قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے بیعت ہوچکے تھے اور انہیں کے حکم سے مکہ مکرّمہ میں سیّد الطّائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکّیؒ سے کسب فیض کیا ۔ حضرت حاجی صاحبؒ کی خدمت میں دو ماہ رہ کر پھر مدینہ منورہ میں والد ماجد کے ساتھ مقیم ہوگئے ۔ مدینہ منورہ آکر آپ نے زہد و تقویٰ ، توکل و اخلاص اور سادگی کی زندگی اختیار کی ۔ ہر چند آپ نے ہندوستان سے ہجرت کا قصد نہیں فرمایا تھا تاہم والد صاحب کی حیات تک آغوش پدری کو چھوڑ کر ہندوستان واپس آنا پسند نہیں کیا ۔ 1318ھ میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے آپ کو بذریعہ خط ہندوستان بلایا اور اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا ، اس سفر میں آپ کو تین ماہ حضرت گنگوہیؒ کی خدمت میں رہنے کا موقعہ ملا ۔

قیامِ مدینہ منورہ کے زمانے میں تقریباً سولہ سترہ سال تک مسجد نبوی ﷺ میں درس حدیث کی خدمت تنگی و عسرت کے باوجود حسبۃً للہ توکلاً علی اللہ انجام دی ۔ عموماً روزانہ تہجّد کے بعد سے لے کر عشاء کے بعد تک بارہ بارہ گھنٹے تک مسلسل تفسیر ، حدیث ، فقہ کے درس و تدریس کا مشغلہ جاری رہتا تھا ۔ مختلف جماعتیں یکے بعد دیگرے حاضر ہوکر آپ کے فیضان علمی سے سیراب ہوتی تھیں ۔ مسجد نبوی ﷺ میں آپ کا درسِ حدیث وہاں کے تمام شیوخِ حدیث سے زیادہ پسندیدہ اور مقبول تھا ، اور اس کی شہرت نے مختلف اسلامی ممالک کے طالبانِ علم کی ایک بڑی تعداد کو آپ کے گرد جمع کردیا تھا ۔ آپ کے درس میں مشائخ اور علماء کبار شامل ہونے لگے ۔ حجاز مقدس میں آپ کو شیخ الحرم سے یاد کیا جانے لگا ۔ حجاز کی مقدس سرزمین اور خاص مسجد نبوی ﷺ میں ایک ہندوستانی عالم کی جانب اس قدر کشش اور قبول عام کا باعث آپ کے طریقۂ درس کی اس خصوصیت کو سمجھنا چاہیے ، جو آپ کو دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ سے ورثہ میں ملی تھی ۔ 

مدینہ منورہ کے قیام کے زمانہ میں آپ کئی مرتبہ ہندوستان تشریف لائے ۔ 1329ھ مطابق 1911ء میں تقریباً ایک سال دیوبند میں قیام فرماکر تدریسی خدمات بھی انجام دیں ۔ 1333ھ مطابق 1915ء میں جب حضرت شیخ الہندؒ سیاسی مصالح کے پیش نظر حجاز مقدس تشریف لے گئے تو آپ کے یہاں قیام فرمایا ، اور آپ ہی کے ذریعے سے ترکی کے وزیر جنگ انور پاشا اور کمال پاشا سے ملاقات فرماکر اپنی انقلابی اسکیم ان کے سامنے پیش کی تھی ۔ وہ وقت دوسری جنگِ عظیم اور شریف کی عثمانی حکومت کے خلاف بغاوت کا تھا جب عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت کی اور شریف حسین نے حضرت شیخ الہندؒ کو گرفتار کرکے انگریزوں کے حوالے کیا تو آپ بھی حضرت شیخ الہندؒ کے رفقاء میں شامل تھے ۔ جس نے ان سب حضرات کو پہلے مصر پہنچایا پھر وہاں سے مالٹا منتقل کردیا ، 1335ھ ربیع الآخر کے آخر میں یہ سب حضرات مالٹا پہنچے ، چنانچہ سوا تین سال تک آپ کو بھی مالٹا میں جنگی قیدی کی حیثیت سے رہنا پڑا ۔ اور آپ نے اس عرصہ پوری جانفشانی سے اپنے استاذ حضرت شیخ الہندؒ خدمت کی ، اللہ کی عبادت کی ، کتابوں کے مطالعہ میں لگے رہے اور قرآن کریم بھی حفظ کرلیا ۔ 22؍ جمادی الآخر 1338ھ مطابق 1920ء میں رہائی کا حکم صادر ہوا تو آپ حضرت شیخ الہندؒ کی معیت میں ہندوستان تشریف لائے ۔ مالٹا سے واپسی کا زمانہ تحریک خلافت کا آغاز کا زمانہ تھا ، آپ یہاں پہنچ کر حضرت شیخ الہندؒ کی قیادت میں سیاست میں شریک ہوگئے ۔ اس زمانہ میں آپ کی مجاہدانہ اور سرفروشانہ قربانیوں نے مسلمانوں کے دلوں کو آپ کی عظمت و محبّت سے لبریز کردیا ۔ اسی دوران مولانا آزادؒ نے کلکتہ میں ایک نیشنل مدرسہ عالیہ قائم کیا اور حضرت شیخ الہندؒ سے فرمائش کی کہ اپنے خواص میں سے کسی کو تدریس کے لئے وہاں بھیج دیں ، اس پر انہوں نے آپ کو کلکتہ جانے کا حکم دیدیا ۔ آپ نے اپنی خواہش پر اپنے استاذ حضرت شیخ الہندؒ کی رضا کو ترجیح دی اور زیادہ دور نہ گئے ہوں گے کہ حضرت شیخ الہندؒ کی وفات کی خبر آگئی ، آپ فوراً دیوبند واپس آئے لیکن حضرت شیخ الہندؒ کی تدفین ہوچکی تھی ۔ آپ نے دیوبند میں تین چار روز قیام کرکے کلکتہ جانے کا عزم فرمایا دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحبؒ نے آپ کو دارالعلوم دیوبند ہی میں رہنے کا مشورہ دیا مگر آپ نے کہا کہ کلکتہ جانے کے لئے چونکہ حضرت شیخ الہندؒ فرماچکے ہیں اس لئے میرے لئے یہی مناسب ہے کہ میں کلکتہ چلا جاؤں ، اس کے بعد آپ کلکتہ آگئے اور ایک مدت تک اس مدرسہ میں تدریس میں مشغول رہے ۔ پھر وہاں سے ( آسام کی راجدھانی ) سلہٹ جو کہ اب (بنگلہ دیش) میں ہے منتقل ہوگئے اور وہاں 6؍ سال حدیث شریف کا درس دیتے رہے ، لوگوں کی اصلاح کرتے رہے اور ان میں غیرت ، حمیت اور آزادی کے جذبہ کی روح پھونکتے رہے اور بیشمار لوگوں نے آپ سے فائدہ اٹھایا ۔ حضرت شیخ الہندؒ کی وفات پر متفقہ طور سے آپ کو ان کا جانشین تسلیم کرلیا گیا ۔ آپ حضرت شیخ الہندؒ کی سیاسی و علمی وراثت کے سب سے بڑے امین تھے ۔ آپ کو حضرت شیخ الہندؒ سے طویل صحبت و ملازمت کا شرف حاصل رہا جس میں آپ کے رفقاء و معاصرین میں کوئی بھی آپ کا سہیم و شریک نہیں ۔ اسی اتصال و یک نفسی نے حضرت مدنیؒ کی ذات کو ایک ایسا آئینہ بنادیا تھا جس میں حضرت شیخ الہندؒ کے سراپا کو بخوبی دیکھا جاسکتا تھا ۔  

یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کی جنگ آزادی زوروں پر تھی ، ہر جگہ ایک ہنگامہ برپا تھا ۔ جب آزادی اور سیاسی انقلاب کی تحریک نے زور پکڑا تو آپ بھی اس میں لگ گئے ۔ اسی اثناء 1340ھ مطابق 1921ء میں کراچی کا مشہور تاریخی مقدمہ پیش آیا ۔ 1921ء میں آپ نے مسلمانوں کے لئے برطانیہ کی انگریز فوج میں ملازمت کو حرام قرار دیا اور اس کلمۂ حق کا برسرِ اجلاس اعلان کرکے ظالم انگریز حکومت کا تکبر اور غرور خاک میں ملادیا اسی کلمۂ حق کے اعلان پر آپ پر مقدمہ چلا اور دو سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی گئی 1923ء میں قید کی یہ مدت پوری ہوئی اور آپ کو رہائی نصیب ہوئی ۔ 

جنگِ آزادی میں شرکت و انہماک کے باعث آپ کو اسی طرح متعدد مرتبہ کئی کئی سال تک جیل میں رہنا پڑا ۔ آپ کی زندگی کے تقریباً آٹھ سال قید فرنگ میں گزرے ۔ آپ جہاد حریت کے صف اول کے قائدین میں سے تھے اور آپ نے ملک کی آزادی کے لئے قید و بند کی بے انتہا صعوبتیں برداشت کیں ۔ جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے آپ نے قوم و ملت کی بیش بہا خدمات انجام دیں اور ملت اسلامیہ ہند کی اس عظیم الشان جماعت کی تاعمر قیادت فرمائی ۔

دارالعلوم دیوبند میں مسندِ صدارت پر :

1346ھ مطابق 1927ء میں جب حضرت علامہ سیّد محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ دارالعلوم دیوبند میں شیخ الحدیث کے منصب سے علٰیحدگی اختیار کرکے ڈابھیل منتقل ہوگئے تو آپ کے سوا دارالعلوم دیوبند میں کوئی ایسی شخصیت موجود نہ تھی جو دارالعلوم دیوبند کی اس مہتم بالشان جگہ کو اس کے شایانِ شان پُر کرسکے ؛ اس لئے اکابر کی نظر انتخاب آپ ہی پر پڑی ۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب عثمانیؒ نے آپ کو دارالعلوم دیوبند آنے کی پیشکش کی آپ نے پہلے تو صاف انکار فرمایا ، مگر حضرت مہتمم صاحب کے اصرار پیہم پر 1346ھ مطابق 1927ء میں دارالعلوم دیوبند کا منصبِ صدارت اس شرط پر قبول فرمایا کہ جنگِ آزادی کی تحریک میں حصہ لیتے رہیں گے ۔ حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند اور دیگر ذمہ داروں نے آپ کی جملہ شرطیں قبول کرتے ہوئے آپ کو دارالعلوم دیوبند کی مسند صدارت سونپ دیا جو دارالعلوم دیوبند کے لئے نیک فال ثابت ہوا ۔ اس اعلیٰ منصب پر حضرت مدنیؒ 32؍ سال تک فائز رہے ۔ اس عرصہ میں علم و عرفان کی وہ بارش ہوئی جس سے دنیائے اسلام میں بَہار آگئی ، مشرق سے مغرب تک کے بیشمار تشنگانِ علوم اس بحرِ معرفت سے سیراب ہوئے ۔ آپ کے زمانۂ صدارت میں طلبہ کی تعداد میں دوگنے سے بھی زیادہ اضافہ ہوا اور خاص طور پر دورۂ حدیث کی جماعت میں یہ اضافہ تین گنے سے بھی متجاوز ہوگیا ۔ 1346ھ سے 1377ھ تک 32؍ سال کی مدت میں آپ کے زمانۂ صدارت میں 4483 طلبہ نے دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی ۔  

آپ کا درسِ حدیث مضامین کے تنوع اور جامعیت کے لحاظ سے دنیائے اسلام میں اپنی نوعیت کا واحد درس سمجھا جاتا تھا ، چنانچہ اس کی عظمت ، شہرت اور کشش سال بسال طلبہ کی تعداد میں اضافے کا موجب ہوتی رہی ۔ حدیث نبوی ﷺ میں آپ کا تلامذہ کا حلقہ بہت وسیع ہے اور برِصغیر کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں آپ کے شاگرد موجود نہ ہوں ۔ برِصغیر کے مدارس میں مسندِ حدیث پر فائز سربرآوردہ علماء کرام میں اکثر کو آپ کی شاگردی کا شرف حاصل ہے ۔ جس طرح آج دنیائے اسلام میں دارالعلوم دیوبند کو علومِ نبویہ ﷺ کی تعلیم میں طغرائے امتیاز حاصل ہے اس طرح آپ کا علمی فیض بھی امتیاز خاص رکھتا ہے ۔ 

حضرت مدنیؒ کا دور تابناک دارالعلوم دیوبند کی انتہائی ترقی اور شہرت کا زمانہ تھا ۔ شاید ہی کوئی ادارہ ایسے مجمع المحاسن انسان سے اتنے دنوں تک فیضیاب ہوا ہو ۔ دارالعلوم دیوبند کی وہ بہارِ رفتہ جو اس پیکر سنت مُحدّث کے دور میں گزری ہے لوٹ کر نہیں آسکتی ۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بیشمار صفاتِ محمودہ سے نوازا تھا ، شریعت و طریقت کے شیخ وقت کے جلیل القدر مُحدّث ، اسلاف کی مکمل تصویر ، صحابہؓ کے نمونہ ، سُنّتِ نبوی ﷺ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ایک منارۂ ہدایت تھے ۔ رات کے زاہد دن کی مجاہد ، 12؍ بجے شب تک بخاری شریف کے درس کے بعد طلباء بسترِ استراحت پر اور مجاہد شیخ اپنے رب کے حضور مصلّے پر ۔ آپ دارالعلوم دیوبند میں بخاری شریف اور ترمذی شریف کا درس دیتے تھے ، دونوں کتابوں کا درس نہایت محقق کے ساتھ ہوتا تھا کہیں کوئی تشنگی باقی نہیں پاتی ۔ بلید اور کمزور ذہن کے طلباء بھی پورے طور پر استفادہ کرتے تھے ، آپ کی درسگاہ سے کوئی خالی دامن نہیں اٹھتا تھا ، جس وقت آپ اپنے انوار و برکات کے ساتھ دارالحدیث میں جلوہ افروز ہوتے تھے وہ منظر بڑا دیدنی ہوتا تھا ، ایک نورانی سماں آنکھوں کے سامنے آجاتا تھا ، معلوم ہوتا تھا ہم خیرالقرون کا منظر دیکھ رہے ہیں ۔ ابو حنیفۂ وقت ، شبلی زمانہ خلیفۃ الرشید ، تلمیذ المحمود ، جیسے کوئی گلدستہ ہو جس میں ہر طرح کے پھول لگے ہوئے ہیں ۔ درسگاہ کا گہر ریز مُحدّث ، خانقاہ کا عطر بیز شیخ رزمگاہ کا قیامت خیز مجاہد ۔ 

یہ تصور اور بھی ایمان و یقین کا ثبوت بنتا تھا کہ وہ مُحدِث اعظم جس نے سترہ سال تک مسجد نبوی ﷺ میں حدیث پاک کا درس دیا ہے اور نہ معلوم کتنے مکی مدنی شامی اور ترکی طلباء نے اس بحر نا پیدا کنار سے اپنی تشنگی بجھائی ہے ۔ اے زہے نصیب کہ آج وہ ہمارے درمیان جلوہ فشاں ہے ۔ اسی خیال میں طالب علم محو ہوجاتا تھا ۔

 آپ نے مسلمانوں میں غیرت و حمیت زندہ کی اور بے مثال ہمت اور قوت ارادی کے ساتھ درسی و سیاسی دونوں کام انجام دیتے رہے ۔ 

جہادِ حریت کی قیادت :

حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ ہندوستان کی جہادِ آزادی کے صف اول کے قائدین میں سے تھے ۔ آپ کو بجا طور پر جانشینِ شیخ الہندؒ کہا جاتا ہے ۔ آپ نے حضرت نانوتویؒ اور حضرت شیخ الہندؒ وغیرہ اکابرین کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور جمعیۃ علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی قیادت کا فریضہ انجام دیا ۔ 

آپ نے ملک کو آزاد کرانے ، اس سلسلہ میں قید و بند کی صعوبتیں اٹھانے ، قربانیاں دینے اور خلوص و استقامت سے کام کرنے کی ایسی مثال پیش کی جس کی وجہ سے ملت اسلامیہ اس سرزمین پر اعزاز و افتخار کے ساتھ سر اونچا کرکے ، نام نہاد دعویداروں کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے ، اپنے دین و شریعت اور زبان و تہذیب نیز نظامِ تعلیم میں اپنے تشخص اور اپنی ضرورت کا احساس کرانے کی اہل بن سکی ۔

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکّیؒ کی دعائے صبح آگاہی ، حضرت نانوتویؒ کی قلبی کیفیات اور حضرت شیخ الہندؒ کی ملکی و ملی خدمات نے جو نقش قائم کیا ان کو عملی صورت میں آگے بڑھانے کے لئے آپ نے جمعیۃ علمائے ہند کے توسط سے گھر گھر آزادی کا صور پھونکا اور ایک پاک باز اور وفادار مجاہد کی حیثیت سے دینی و ملکی خدمات کا ایک لازوال نقش قائم کیا ۔ آپ کی انقلابی فکر و عزیمت اور سیاسی بصیرت کا لوہا مخالفین نے بھی مانا ۔ ملک کی تقسیم کے جن مضر اثرات کو آپ نے اپنی تقریروں میں واضح کیا ، آج وہ کھل کر سامنے آگئے ۔ 

خدمت قوم و وطن کے سلسلے میں جتنا عظیم جہاد آپ نے کیا ہے اس کی مثال اور نظیر کم ہی مل سکتی ہے ۔ 

تقسیم ہند کے بعد آپ نے عملی طور پر سیاست سے علٰیحدگی اختیار کرلی ، اور درس و تدریس ، دعوت و ارشاد اور تعلیم و تربیت میں مشغول ہوگئے ۔ حکومت اور حکومت کے لوگوں سے آپ کا تعلق باقی نہیں رہا ، 1373ھ مطابق 1954ء میں صدر جمہوریہ یند نے آپ کو ایک اعزازی عہدہ دینے کی پیشکش بھی کی لیکن آپ نے یہ کہہ کر انکار کردیا یہ ہمارے اسلاف کے طرز عمل سے میل نہیں کھاتا ۔ آپ دارالعلوم دیوبند ہی میں حدیث شریف کا درس دیتے رہے اور ساتھ میں ملک کے طول و عرض میں دورے بھی کرتے رہے ، آپ اپنے اوقات کے بڑے پابند تھے ، راتوں کو جاگ کر اپنے اوراد و وظائف پورے کرتے اور درسی کتابوں مطالعہ کرتے اور پھر پوری بشاشت کے ساتھ درس دیتے ، آپ آنے والے وفود اور مہمانوں کا اکرام کرتے ، سائلوں کا حق ادا کرتے اور مسلمانوں کو دعوت دیتے کہ دین کو مضبوطی سے تھامے رہیں ، شریعت اسلامی کے احکام کی پیروی کرتے رہیں ، حضور ﷺ کی سُنّتوں پر چلتے رہیں ، اور اللہ کے ذکر کی کثرت اور اصلاحِ حال کرتے رہیں ۔ آپ کے اندر حد سے زیادہ تواضع تھی ، اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں کو آپ کی طرف مائل کردیا تھا اور آپ کی محبت ان کے دلوں میں راسخ کردی تھی ، ہر طرف سے لوگ آپ کی خدمت میں تنہا بھی اور گروہوں کی شکل میں بھی حاضر ہوتے تھے اور اسی طرح اپنے یہاں بلانے والوں کے دعوت ناموں کا بھی آپ کے پاس ڈھیر لگا رہتا تھا ، جن کو آپ بڑی خوش دلی سے قبول کرلیتے تھے اور مشقتیں اٹھاکر وہاں تشریف لے جاتے تھے ۔ 

جمعیۃ علمائے ہند آپ کی محبوب جماعت تھی جس کے ساتھ آپ ہمیشہ وابستہ رہے ۔ 1940ء میں جمعیۃ علمائے ہند کی صدارت آپ کے سپرد ہوئی ، جو 1957ء یعنی آپ کی وفات تک باقی رہی ۔ سترہ سال تک یہ علماء کی جماعت آپ کی صدارت میں اپنے کام کو سر انجام دیتی رہی ۔

ایک جامع شخصیت :

حضرت مدنیؒ کی ذاتِ گرامی ایک ایسا جوہرِ قابل تھی جس میں عالم دین کی عظمت و رفعت ، مجاہد کی جرأت و عزیمت اور شیخِ وقت کی کشش و مقبولیت جیسی ساری صفات محمودہ جمع تھیں ۔ آپ کی تعلیمی ، تربیتی ، تصنیفی اور سیاسی خدمات اور کارنامے نصف صدی سے زیادہ عرصہ کو محیط ہیں ۔ مدینہ منورہ ، مدرسہ عالیہ کلکتہ اور سلہٹ و آسام کے علاوہ صرف دارالعلوم دیوبند میں چار ہزار سے زائد تلامذہ ہیں جنھوں نے آپ کی شمع علم سے اکتساب نور کیا ۔ لاکھوں سے زیادہ طالبین حق ہیں جنھوں نے تربیت گاہ مدنی سے تصحیح عقائد ، تحسین اخلاق اور تزکیۂ باطن کا درس لیا جن میں ڈیڑھ سو سے زیادہ خوش بخت اور جواں ہمت بھی ہیں جو احسان و سلوک کی منزلیں طے کرکے سند اجازت و خلافت سے مشرف ہوئے ۔ اصلاح معاشرہ اور تبلیغ دین کے لئے اس وسیع و عریض ملک کے چپے چپے کا دورہ ، اسلامی عنوانات پر ہزاروں سے زائد خطبات و تقریریں ، علوم اسلامی کی اشاعت کی غرض سے ہزاروں مکاتب دینیہ اور مدارس اسلامیہ کی سرپرستی و نگرانی آپ کی خدمات کا روشن عنوان ہیں ۔ 

استخلاص وطن ، حریت قومی اور ملت کی سربلندی کے لئے آپ نے وقت کی سب سے بڑی استعماری طاقت سے محاذ آرائی کی ۔ آپ نے سیاست کے بحر مواج میں اپنے سفینہ کی تختی بندی کی ، مگر اس بصیرت کے ساتھ کی کہ اس کی چھینٹیں آپ کے دامن حیات کو نمناک نہ کرسکیں ۔ آپ نے مذہب و سیاست کے جام و سندان کو باہم آمیز کردیا ، مگر اس کمال فراست کے ساتھ کہ دونوں کی نزاکتوں سے ایک لمحہ کے لئے بھی صرف نظر نہیں کیا ۔ بسا اوقات پورا دن ٹرین ، تانگہ اور بیل گاڑیوں کے تکلف دہ سفر میں گزر جاتا اور رات کا بیشتر حصہ جلسہ ، وعظ یا درس میں ، لیکن کیا مجال کہ آہ نیم شبی اور آقائے بے نیاز سے عرض و نیاز کے محبوب مشغلہ میں ذرا بھی فرق آجائے ۔ 

پھر ان ہمہ جہت اور مختلف النوع مشاغل کے ساتھ مختلف دینی ، علمی ، سیاسی اور تاریخی موضوعات پر کتب و رسائل کی تالیف و تصنیف ، نیز ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے ان مکاتیب کی تحریر جن میں تفسیر آیات ، تشریح احادیث ، تفصیل عقائد ، توضیح مسائل فقہیہ ، رموز احسان اور تاریخ و سیاست سے متعلق بیش بہا نادر معلومات کا عظیم ذخیرہ جمع کردیا ہے جس کے بارے میں پورے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ مکتوبات و ملفوظات کی طویل فہرست میں مخدوم شرف الدین ہحییٰ منیریؒ (م 782ھ) ، مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ (م1034ھ) اور شیخ حسام الدین مانک پوریؒ کے مجموعۂ مکاتیب کے بعد شیخ الاسلامؒ کے مکتوبات اپنی افادیت ، اپنی اثر آفرینی ، کثرتِ معلومات اور جامعیت میں سب پر فوقیت رکھتے ہیں ، اور جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ مکتوبات قلم برداشتہ اور بالعموم اسفار یا قید و بند کی حالت میں لکھے گئے ہیں جس سے شیخ الاسلامؒ کے علمی استحضار و عبقریت کا کسی قدر اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ آپ کی خود نوشت سوانح حیات "نقشِ حیات " تاریخ آزادئ ہند کی مستند دستاویز ہے ۔ 

حضرت مولانا مدنیؒ کی ذات بڑی اخلاقی خوبیوں اور مکارم عادات کا مجموعہ تھی ۔ آپ کا حلم و تواضع اور عاجزی و انکساری مثالی تھی ۔ آپ کا دسترخوان نہایت وسیع تھا ، عموماً کم از کم دس ، پندرہ مہمان آپ کے دسرخوان پر ضرور موجود رہتے تھے ۔ 

تصنیفات و تالیفات :

آپ کی تصنیفات کی تعداد کم ہے ؛ کیوں کہ مختلف تدریسی ، سیاسی اور تبلیغی و اصلاحی مشغولیات کی وجہ سے آپ اس جانب توجہ نہ دے سکے ۔ ذیل میں آپ کی کتابوں کی فہرست دی جارہی ہے : ( 1 ) مکتوبات شیخ الاسلام ( 2 ) نقشِ حیات ( 3 ) الشہاب الثاقب ( 4 ) سلاسل طیبہ ( 5 ) اسیرِ مالٹا ( 6 ) متحدہ قومیت اور اسلام ( 7 ) مودودی دستور کی حقیقت ( 8 ) ایمان و عمل ( 9 ) خطبات صدارت ( 10 ) الخلیفۃ المہدی فی الحادیث الصحیحۃ ( 11 ) الحالۃ التعلیمیۃ فی الہند ( 12 ) بحوث فی الدعوۃ والفکر الاسلامی ( 13 ) درس بخاری ( مرتب مولانا نعمت اللہ اعظمی ) 

وفات :

محرم 1377ھ مطابق 1957ء میں آپ مدراس کے سفر پر روانہ ہوئے ، کم و بیش ڈیڑھ ماہ سفر کا پروگرام تھا ، اس سفر میں دل کا دورہ پڑا ، دیوبند واپس تشریف لانے پر ڈاکٹروں نے تشخیص کیا کہ قلب کا پھیلاؤ بڑھ گیا ہے ۔ مقامی اور بیرونی ڈاکٹروں کا علاج ہوتا رہا ، مگر افاقہ نہ ہوا ، پھر یونانی علاج شروع کیا گیا ، چنانچہ اس وقت کے سارے ہندوستان کے مشہور معالجین حکیم عبد الجلیل صاحب ، حکیم محمد اسماعیل صدیقی صاحب دوا خانہ دہلی ، حکیم محمد عمر صاحب دارالعلوم دیوبند ، حکیم اجمل خان صاحب ، حکیم عبد الحمید صاحب ہمدرد دوا خانہ دہلی وغیرہ سارے ہی یونانی اطبا جمع ہوگئے اور نہایت غور و فکر کے ساتھ دوائیں ، علاج اور غذا تجویز کی گئی ۔ اس علاج سے حیرتناک طور پر افاقہ ہوا اور حضرت مدنیؒ ایک مدت کے بعد باہر تشریف لائے ، اس واقعہ سے چاروں طرف مسرت و شادمانی کی لہر دوڑ گئی ۔ 

10 ؍ 11 جمادی الاولیٰ 1377ھ مطابق ( 3 ؍ 4 دسمبر 1957ء ) کو طبیعت کافی پُرسکون رہی ، 12؍ جمادی الاولیٰ (5 دسمبر) بروز جمعرات کی صبح کو طبیعت کافی ہشاش بشاش ہوگئی نو یا دس بجے کے قریب کمرے سے نکل کر بغیر کسی کی مدد کے چھڑی کے سہارے صحن میں تشریف لائے اور آرام فرمایا ، کافی دنوں کے بعد صحت اور طاقت کی یہ معمولی سی نشانی آئی تھی ، کئی دن کے بعد دوپہر کو غذا تناول فرمائی ، بچوں اور اہلیہ محترمہ سے باتیں کیں اور سب بچوں کو حُسنِ خلق کے ، حُسنِ معاملہ اور پابندی شریعت کے بارے میں نصیحتیں فرماتے رہے اور پھر لیٹ گئے ۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد 3؍ بجے کے قریب نمازِ ظہر کے لئے جب بیدار کرنا چاہا تو کوئی جواب حرکت نہ دیکھی تو لوگ سراسیمہ اور بدحواس ہوکر دوڑے بھاگے ڈاکٹروں اور حکیموں کو بلایا ، انھوں نے معائنہ فرمایا اور تھوڑی ہی دیر میں اعلان کردیا کہ شیخ العرب والعجم ، امام العصر ، محدثِ دوراں ، شیخ الاسلام حضرتِ اقدس مولانا سیّد حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوچکا ہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ 

آپ کے وصال کے بعد فوراً ہر جگہ ٹیلی فون ، تار اور فرستادہ دوڑ گئے تھوڑی دیر میں آل انڈیا ریڈیو نے وصال کی اطلاع نشر کی ، بہت سے شہروں کے بازار بند ہوگئے ، ختم قرآن کا اہتمام ہونے لگا اور لوگ دیوانہ وار دیوبند کی طرف روانہ ہوگئے ، اسپیشل ٹرینیں ، بسیں ، لاریاں ، ٹرک ، موٹریں ، تانگے ٹریکٹر ، سائیکل ، پیدل اور موٹر سائیکل غرض جس کو جو سواری میسر آئی دیکھتے ہی دیکھتے تھوڑی دیر میں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دارالعلوم دیوبند اور حضرت مدنیؒ کے دولت کدہ پر جمع ہوگئے لاکھوں انسانوں کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ، لوگ ہچکیاں اور سِسکیاں لیکر رورہے تھے ، حسرت زدوں میں مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی برابر شریک تھے ۔ دور دراز کے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ جمعہ کے دن بعد نماز جمعہ تدفین عمل میں آئے گی ، مگر صاحبزادہ مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ نے فرمایا کہ ابا جان ساری عمر سنتِ رسول ﷺ پر عمل کرتے رہے ہیں اور حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ تدفین میں عجلت کی جائے ، ہمیں جلدی کرنا چاہیے اگرچہ حضرت کی یہ وصیت نہیں ہے ، تاہم ان کی خوشی اسی میں ہے اور اس متبعِ سنّت کی میت کے احترام کا تقاضا یہی ہے کہ آخری راحت گاہ پر جلد سے جلد پہنچایا جائے ۔ 

مغرب یا عشاء کے بعد اسی جگہ پر جہاں وفات ہوئی تھی مولانا عبدالاحد صاحبؒ مدرس دارالعلوم دیوبند ، مولانا راشد حسن صاحبؒ نبیرہ حضرت شیخ الہندؒ نے غسل دیا ۔ اس کے بعد آخری حج کے احرام کی چادر کا کفن تیار کیا گیا اور اس میں حضرتؒ کے مشائخ اور اساتذۂ حدیث کے تبرکات حضرتؒ کی خواہش کے مطابق منسلک کرکے کفن پہنایا دیا گیا ، نو بجے تک جنازہ تیار کرکے تھوڑی دیر کے لئے اہلیہ محترمہ ، صاحبزادیوں اور اعزہ و خواتین کی زیارت کے لئے وہیں رکھا ، پھر ساڑھے نو بجے جنازہ اٹھایا گیا گھر سے مدرسہ تک پانچ منٹ کا راستہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا ۔ 

تاخیر سے بچنے کے لئے ساڑھے بارہ بجے شب حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کی ایما پر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ شیخ الحدیث مظاہرعلوم سہارنپور نے نمازِ جنازہ پڑھائی ، اس کے بعد جنازہ زیریں دارالحدیث میں عام زیارت کے لئے رکھ دیا گیا ، آخر رات کو دو بجے کے قریب جنازہ اپنے سفر پر قبرستان کے لئے روانہ ہوا ، قبرستان اگرچہ ایک فرلانگ کے فاصلے پر تھا ، تاہم بیس پچیس ہزار انسانوں کے جم غفیر کو جنازہ کے ساتھ وہاں پہنچتے پہنچتے دو گھنٹے لگ گئے ، قبرستان میں ہزاروں علماء موجود تھے ، اور بالآخر حضرت شیخ الاسلامؒ کا جنازہ اپنے دو عظیم پیش روؤں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی قبروں کے پاس پہنچ گیا ، اور پھر عین اس وقت کہ روزانہ حضرت شیخ الاسلامؒ تہجد میں اپنے رب کے حضور پیش ہوتے تھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حاضر ہوگئے ، قبر میں مولانا عبد الاحد صاحبؒ ، مولانا راشد حسن صاحب عثمانیؒ ، مولانا شوکت علی خانؒ اور حضرت کے بڑے صاحبزادے مولانا سید اسعد مدنیؒ نے اتارا ۔ 12 ؍ 13 ؍ جمادی الاولیٰ 1377ھ مطابق 5 ؍ 6 دسمبر 1957ء کی  درمیانی شب میں اس خزینۂ علم و معرفت کو حضرت شیخ الہندؒ اور حضرت نانوتویؒ کے جوار میں سپردِ خاک کردیا گیا ۔

( نقشِ حیات ( تلخیص ) ص : 9 ، مآثر شیخ الاسلامؒ ، تاریخ دارالعلوم دیوبند : 2 / 82 ، شیخ الاسلامؒ کے حیرت انگیز واقعات ص : 173 ، سوانح حضرت مدنیؒ ، تذکرۂ اکابر ص : 127 ، دارالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ ص : 496 تا 501 ، حیاتِ شیخ الاسلام ، تذکرہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ ، علماء دیوبند کے آخری لمحات ص : 94 ۔ 95 ، شیخ الاسلام حضرت مولانا مدنیؒ کے تفصیلی حالات خود ان کی خود نوشت سوانح نقشِ حیات ، الجمعیۃ شیخ الاسلام نمبر وغیرہ میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ )

کاپى۔۔پوسٹ

Comments

Popular posts from this blog

Future historians will describe how the Ram Temple was built instead of the Babri Masjid

آگے آنے والا مورخ لکھے گا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کس طر بنا؟ 🎤 حضرت مولانا سید ارشد مدنی امیر شریعت ہند و صدرِ جمعیت علماء ہند و استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند انڈیا اس ملک کا دستور سیکولر دستور ہے اور سیکولرازم کی حفاظت جمعیت علماء نے کی ہے، اگر جمعیت علماء نے ملک کے سیکولر دستور کی حفاظت نہ کی ہوتی تو آج یہ ملک سیکولر ملک باقی نہیں رہتا؛ کیوں کہ چند لوگ تھے جو گاندھی جی کو مجبور کر رہے تھے کہ ملک اب سیکولر ملک نہیں ہوگا، لیکن جمعیت علماء کے سامنے گاندھی جی، پنڈت جواہر لال نہرو جی اور دوسرے لوگ بھی مجبور ہوئے اور انہوں نے سیکولرزم کو قبول کیا اور اس طرح جمعیت علماء کے اس مطالبے سے کبھی کانگریس باہر نہیں جا سکی اور اگر کبھی کانگریس باہر نکلنے کو دائیں بائیں ہوئی تو کوئی نہیں بولا جمیعت علماء تنہا وہ جماعت تھی جس نے جیل بھرو تحریک چلائی، اور مجھے خوب یاد ہے ہے کہ اس موقع پر جمیعت علماء کے سارے ملک کے لوگ دلی کی کالی مسجد میں تھے۔ اندرا جی نے سفید کاغذ کے اوپر دستخط کر کے جنرل شاہنواز کو بھیجا کہ آپ کے جو مطالبات ہیں اس میں لکھ دیجئے، اس میں میرے دستخط موجود ہیں اور مجھے وہ مطا

Why should grammar be taught in schools?

      Grammar instruction in schools serves as a fundamental component of language education, contributing to students' overall communication skills. Firstly, a solid grasp of grammar is essential for effective writing. Proper sentence structure, punctuation, and syntax contribute to clarity and coherence in written expression. Without a foundation in grammar, students may struggle to convey their ideas in a coherent and organized manner, hindering their ability to communicate effectively through writing. Secondly, understanding grammar is crucial for comprehension. When students are adept at recognizing and applying grammatical rules, they can more easily understand and interpret written texts. This skill is not only beneficial in academic settings but also in real-world scenarios where precise comprehension is vital. Whether reading instructions, contracts, or literature, a command of grammar enhances the ability to extract meaning accurately. Furthermore, grammar education promo

الموسوعة الحدیثیة لمرویات الإمام أبی حنیفة

علم حدیث کا ایک عظیم کارنامہ ”الموسوعة الحدیثیة لمرویات الإمام أبی حنیفة“ ۲۰ جلدوں میں منظر عام پر https://nomanmakkiblog.wordpress.com/2020/12/26/al-mousua-al-hadithiyyah-li-marwiyaatil-al-imam-abi-haneefah-r-a/