Skip to main content

Future historians will describe how the Ram Temple was built instead of the Babri Masjid

آگے آنے والا مورخ لکھے گا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کس طر بنا؟

🎤حضرت مولانا سید ارشد مدنی

امیر شریعت ہند و صدرِ جمعیت علماء ہند و استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند انڈیا

اس ملک کا دستور سیکولر دستور ہے اور سیکولرازم کی حفاظت جمعیت علماء نے کی ہے، اگر جمعیت علماء نے ملک کے سیکولر دستور کی حفاظت نہ کی ہوتی تو آج یہ ملک سیکولر ملک باقی نہیں رہتا؛ کیوں کہ چند لوگ تھے جو گاندھی جی کو مجبور کر رہے تھے کہ ملک اب سیکولر ملک نہیں ہوگا، لیکن جمعیت علماء کے سامنے گاندھی جی، پنڈت جواہر لال نہرو جی اور دوسرے لوگ بھی مجبور ہوئے اور انہوں نے سیکولرزم کو قبول کیا اور اس طرح جمعیت علماء کے اس مطالبے سے کبھی کانگریس باہر نہیں جا سکی اور اگر کبھی کانگریس باہر نکلنے کو دائیں بائیں ہوئی تو کوئی نہیں بولا جمیعت علماء تنہا وہ جماعت تھی جس نے جیل بھرو تحریک چلائی، اور مجھے خوب یاد ہے ہے کہ اس موقع پر جمیعت علماء کے سارے ملک کے لوگ دلی کی کالی مسجد میں تھے۔ اندرا جی نے سفید کاغذ کے اوپر دستخط کر کے جنرل شاہنواز کو بھیجا کہ آپ کے جو مطالبات ہیں اس میں لکھ دیجئے، اس میں میرے دستخط موجود ہیں اور مجھے وہ مطالبات منظور ہیں۔ اس تحریک کو ان کے وعدے کے مطابق ختم کردیا گیا۔

 آج کے لوگ جانتے بھی نہیں کہ جمعیت علماء نے کیا کیا ہے؟ ان کا خود کوئی کردار نہیں وہ جمیت علماء کے کردار کو کیا جانیں گے؟

آگے آنے والا مؤرخ لکھے گا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کس طرح بنا؟

آج اس سیکولرازم کو ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنے والے اس ملک کو بربادی کی طرف لے کر چل رہے ہیں۔

ان کو صرف دو سیکولر کھٹکتے ہیں، ان میں سب سے پہلے مسلمان اور دوسرے درجہ کے اندر عیسائیت ہے۔

ہم جس سیکولرزم کو لے کر چلتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ تنہا مسلمان نہیں بلکہ ہر اقلیت چاہے وہ عیسائیت ہو یا چاہے برائے نام یہودیت ہو یا کوئی بھی اقلیت ہے۔

جب ملک کی آزادی کے وقت اس کا دستور سیکولر دستور ہے تو وہ سیکولر دستور رہے گا۔

اگر آپ اس سیکولر دستور کو ختم کرکے یہ چاہیں گے کہ ملک کو سلامتی کے ساتھ لے کر چلیں تو ملک سلامتی کے ساتھ نہیں چل پائے گا۔

یہ پچیس تیس کروڑ کی مسلم اور عیسائی اقلیت کے ہوتے ہوئے آپ یہ چاہتے ہیں کہ ملک کے اندر امن برقرار رہے گا اور ان کو زندگی کا حق نہیں دیا جائے گا، دستور میں ان کا کوئی مقام نہیں ہوگا یہ نہیں ہو سکتا۔

آج آپ کے ہاتھ میں طاقت ہے، آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جس مسجد کو چاہے لے لیں، جس طرح چاہے لے لیں۔

آپ نے جس مسجد کو لیا ہے وہاں بھی ٹھوکر کھائی ہے، ہم جانتے ہیں، جمیعت علماء نے اس کے کیس کو لڑا ہے، جس دن سے مسئلہ چل رہا ہے سن 51، 52 سے اس وقت سے لیکر آج تک جمعیت علماء اس کے کیس کو لڑتی رہی ہے، ہم نے کتنے کروڑ روپیہ اس کے اوپر لوور کوٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے اندر خرچ کردیا، ہمارا کوئی پیسہ نہیں تھا، قوم نے دیا ہم نے اس کو خرچ کیا اور ہم برابر لڑتے رہے۔ مسئلہ کیا تھا لڑائی کا؟ مسئلہ آپ سمجھیے، ہم لڑنے والے ہیں، ہم جانتے ہیں، مسئلہ یہ تھا کہ جس جگہ بابری مسجد بنی ہے وہ مسجد کی اپنی جگہ ہے یا یہ رام جنم بھومی ہے، یہاں رام کا مندر تھا، بابر نے اس مندر کو توڑ کر مسجد بنائی ہے۔ مسئلہ یہ تھا، اسی مسئلہ کے اوپر ہم لڑائی لڑ رہے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آثار قدیمہ نے اس کی کھدائی کروائی، تاکہ مندر کے باقیات نیچے سے نکلتے ہیں یا نہیں، باقیات نہیں نکلے، کوئی پتھر نہیں نکلا، کوئی ستون نہیں نکلا، اور آثار قدیمہ نے اس کے اندر کامیابی حاصل نہیں کی۔ اب آپ دیکھیے کہ ملک کی سب سے بڑی سپریم کورٹ عدالت ہے، وہ عدالت اپنے فیصلے میں کیا کہتی ہے، اس فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ مسجد اپنی جگہ ہے، کسی مندر کو گرا کر مسجد نہیں بنائی گئی ہے، مسئلہ ختم ہوگیا، ہمارا جو مقدمہ پچاس ساٹھ ستر سال سے چل رہا تھا ہم اس مقدمے کے اندر کامیاب ہیں کہ بابر نے اپنی جگہ مسجد بنائی ہے، مندر توڑ کر مسجد نہیں بنی ہے۔ ہم مسلمان ہیں، ہم جانتے ہیں کہ اگر کسی دوسری جگہ کے اوپر مندر توڑ کر مسجد بنائی جاتی وہ مسجد مسجد نہیں ہے، مسجد وہ ہے جو مسجد کی جگہ ہے اور اس جگہ کو وقف کیا گیا ہے۔ ہم تو اس مقدمہ کے اندر کامیاب ہیں۔ جب یہ کہہ دیا گیا کہ مسجد اپنی جگہ بنی ہے مندر کو توڑ کر مسجد نہیں بنی۔

دوسرا فیصلہ کیا ہے؟ دوسرا فیصلہ یہ ہے کہ جنہوں نے اندر گھس کر مسجد میں مورتیاں رکھی ہیں وہ مجرم ہیں، انہوں نے غلط کیا ہے، مسئلہ ختم ہوگیا۔ سننے والے سن رہے تھے فیصلے کو کہ فیصلہ اپنی جگہ پر تھا کہ یہ مسجد کی جگہ ہے ہے، لیکن یہ الگ بات ہے کہ فیصلہ یہ دے دیا گیا کہ یہ جگہ ہم ہندوؤں کو دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے آپ نے دے دی، ہم اپنے مقدمہ کے اندر کامیاب ہیں، ہم آج نہیں بولتے، نہ ہمیں بولنا چاہیے؛ اس لیے کہ ملک کی جو سب سے بڑی عدالت ہے اس نے یہ ہندو بھائیوں کو دے دی، ہم نہیں بولتے، ہم ہزار دفعہ یہ کہہ چکے تھے کہ یہ ہماری آخری لڑائی ہے، سپریم کورٹ ہمارا سپریم کورٹ ہے، ہم اس ملک کے رہنے والے ہیں، سپریم کورٹ جو فیصلہ کردے گا، ہمیں وہ منظور ہے، سپریم کورٹ نے فیصلہ کر دیا، ہم اپنے گھر بیٹھ گئے، ہم خاموش ہیں، ہم نہیں کہتے کچھ، لیکن دنیا ختم تو نہیں ہے، ہم ختم ہو جائیں گے مگر آگے آنے والا مورخ لکھے گا کہ بابری مسجد کی جگہ پر مندر کس طریقے پر بنا ہے؟ ہم نہیں بولتے، لیکن کیا آنے والی دنیا خاموش ہو جائے گی؟

یہ تو دنیا کے حالات ہیں، کل کوئی اور تھا، آج کوئی اور ہے، اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ارشد ہمیشہ زندہ رہے گا، تو پاگل ہے، مرے گا، میری جگہ کوئی دوسرا آ کر رہے گا، یہ تو دنیا ہے، یہاں اسی طرح آنا جانا لگا ہوا ہے۔ ایسی ذات جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی میں کہتا ہوں وہ اوم ہے یعنی اللہ ہے۔

فیسبک پیج "دار العلوم دیوبند انڈیا" کو Follow, Like & Subscribe کریں 

Comments

Popular posts from this blog

Why should grammar be taught in schools?

      Grammar instruction in schools serves as a fundamental component of language education, contributing to students' overall communication skills. Firstly, a solid grasp of grammar is essential for effective writing. Proper sentence structure, punctuation, and syntax contribute to clarity and coherence in written expression. Without a foundation in grammar, students may struggle to convey their ideas in a coherent and organized manner, hindering their ability to communicate effectively through writing. Secondly, understanding grammar is crucial for comprehension. When students are adept at recognizing and applying grammatical rules, they can more easily understand and interpret written texts. This skill is not only beneficial in academic settings but also in real-world scenarios where precise comprehension is vital. Whether reading instructions, contracts, or literature, a command of grammar enhances the ability to extract meaning accurately. Furthermore, grammar education promo

الموسوعة الحدیثیة لمرویات الإمام أبی حنیفة

علم حدیث کا ایک عظیم کارنامہ ”الموسوعة الحدیثیة لمرویات الإمام أبی حنیفة“ ۲۰ جلدوں میں منظر عام پر https://nomanmakkiblog.wordpress.com/2020/12/26/al-mousua-al-hadithiyyah-li-marwiyaatil-al-imam-abi-haneefah-r-a/